
Urdu version below
Potential of Belt and Road Initiative (BRI) explored in connecting South Asia and ending their differences
- South Asia is least integrated and one of the poorest regions
- Countries have signed for regional economic projects, which call for connectivity too
- Progress on connectivity impeded by old mistrusts, but differences can be overcome by connectivity projects
PR/Islamabad
27 June 2018
While South Asia is one of the least integrated regions, countries in this part of the world have signed up for at least one regional connectivity initiatives, especially the China-led Belt and Road Initiative (BRI). Attaining connectivity in the region beset with old rivalries and instability is, therefore, a puzzle worth exploring. There are signs that such goals can be attained.
These thoughts came in the first day of the regional conference on “Connectivity and Geo-Economics in South Asia,” organized by Pak Institute for Peace Studies (PIPS), an Islamabad-based think-tank. Participants had come from China, India, and Nepal besides academics and scholars from Pakistan. China’s acting ambassador to Pakistan Lijian Zhao delivered the keynote speech.
Taking part in the discussion, Indian intellectual Sudheendhra Kulkarni said that South Asia is the “most populous, least integrated and one of the poorest regions of the world.” Trade among South Asian countries often circumvents each other, passing through third countries.
Clearly, old rivalries still hinder progress on any pursuit of connectivity, the conference noted. Add to these are stereotypical perceptions about each other. These, the conference participants argued, have to change, should the region wants to gain maximum from economic initiatives like Belt and Road Initiative (BRI) to which countries like Pakistan have already signed.
Speakers discussed the policy implications of such projects, such as more cultural contacts and cross-border economy. Former senator Afrasiab Khattak questioned the actions of closing border with Afghanistan, saying excessive money has been spent on it. He wondered if this policy even resonates with connectivity goal.
The conference also hinted it was partly to attain similar goal that Pakistan and Afghanistan established a bilateral crisis management mechanism. PIPS’s director Muhammad Amir Rana credited Chinese diplomatic effort for helping normalize those relations, underway since 2016, but went on to ask if China can facilitate a similar channel with India.
Some hinted that Iran’s Chabahar port is meant to outdo Pakistan’s Gwadar port. On this, Afrasiab Khattak said we need to overcome zero-sum game, and move towards a win-win order. Wang Xu, a scholar from China, argued that there seems to be conceptual differences about the purpose of this project. Khattak said, “We need to move from geo-politics to geo-economics”, he noted.
Scholar Fazl ur Rehman, however, hinted if that can be achieved easily, as the BRI itself is being perceived as something sort of attempt to gain political advantage, especially in the west.
Some participants called for reviving the region’s oldest connectivity platform, South Asian Association for Regional Cooperation (SAARC). Nepal’s Sangroula even wondered if without SAARC, the dividends of China’s Belt and Road Initiative will really pay off.
The conference also touched on the domestic interface of regional connectivity projects. In the context of CPEC, a domestic goal has been to uplift the people economically. That explained intense debates over which province in Pakistan will benefit from CPEC. Former senator, Taj Haider, who also headed the special committee on CPEC, said that when it came to choosing sites of CPEC projects, the question was: “shall we connect the areas that are already connected? Or shall we connect those that are undeveloped areas?”
Other speakers included former foreign secretary, Inam ul Haq; former ambassador Aziz Ahmed Khan; academics Dr. Jaffar Ahmed and Dr. Khalida Ghaus; scholar Hamayoun Khan; chambers president Zubair Motiwal, and lawyer Shahzad Akbar.
# # #
سی پیک منصوبے کے بعد چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ۔ اس وقت 22 ہزار پاکستانی طلبہ چین میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ تعداد امریکہ اور برطانیہ میں پڑھنے والے پاکستانی طالبعلوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے ۔
چینی سفیر لی جیانگ جاؤ۔
پاکستانیوں کو خطے کے ممالک سے متعلق اپنے توہمات کو بدلنا ہوگا۔ عالمی سروے بتاتے ہیں کہ پاکستانی عوام اپنے دوست ممالک کے متعلق بھی نفرت پر مبنی رویہ رکھتے ہیں۔ ہمیں چین کو مغرب کی آنکھ سے نہیں بلکہ اپنے تعلقات پر سمجھنا ہوگا۔ محمد عامر رانا
اسلام آباد میں واقع پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیراہتمام دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان جیو اکنامک رابطہ اور جنوبی ایشیا مقامی ہوٹل میں منعقد ہورہی ہے جہاں ورکشاپ کے پہلے روز خطے اور ملک بھر سے دانشوران اور سفراء شرکاء سے خطاب کررہے تھے ۔
دو روزہ کانفرنس کے پہلے دن تین سیشن ہوئے جس میں کانفرنس کی صدار ت پاکستان میں چین کے سفیر لی جیانگ جاؤ نے کی جبکہ انعام الحق صاحب سابقہ وزیر خارجہ ، عزیز احمد خان سابقہ سیکرٹری خارجہ اور پروفیسرسدھیر کلکرنی گفتگو میں مہمان خصوصی تھے ۔
شرکاء میں ملک بھر سے تعلیمی اور صحافتی و معاشی ماہرین افراد شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے اس اقدام کا تسلسل تھا جس میں سی پیک کی مختلف جہتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ ۔ اسمعیل خان نے پہلے سیشن کا آغاز کیا اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کئے ۔ چینی سفیر نے اپنی گفتگو میں شرکاء کی آمد پہ ان کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کا عنوان اس وقت کی ضرورت ہے ۔ رابطہ اور تعاون اس خطے کے ممالک کے لئے لازمی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ وہ ایک دن اسلام آباد سے کراچی پانچ گھنٹے بلٹ ٹرین پہ سفر کرکے پہنچیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا خواب ہے کہ ایک مسافر اگر ناشتہ اسلام آباد میں کرتا ہے تو وہ پانچ گھنٹے بلٹ ٹرین سے سفر کرکے دوپہر کا کھانا کراچی میں کھا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا خواب پورا ہونا کوئی مشکل نہیں ہے ۔
انہوں نے چین میں بلٹ ٹرین منصوبوں کا ذکر کیا۔سال 2013 میں صدر شی نے سلک روڈ کا منصوبہ پیش کیا ۔ ساؤتھ ایشیا اس منصوبے کا اہم رکن تھا ۔ چین پاک اکنامک راہداری اور دیگر ملحقہ منصوبے اس کا حصہ ہیں ۔ پانچ سال بعد آج یہ وژن حقیقت میں بدل رہا ہے ۔ اور جنوبی ایشیا اس کا گواہ ہے ۔ اس منصوبے کے ذریعے خطے کے ممالک کی ترقی ممکن ہوگی ۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان ایشیاء کا اکنامک ٹائیگر بننا ممکن ہوسکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ چینی کہاو ت ہے ۔ امیر ہونا ہے تو سڑک بناؤ، بہت امیر ہونا ہے تو ریل بناؤ بہت ہی زیادہ امیر ہونا ہے تو بلٹ ریل بناؤ۔جب گوادر پورٹ پانچ سال کے لئے سنگا پور کے پاس تھی تو گروتھ کی رفتار آہستہ تھی ، جب اس کا انتظام چین کے پاس گیا ہے تو ترقی کی رفتار تیز ہوگئی ہے سی پیک سے 70 ہزار نوکریاں پیدا ہوئی ہیں ۔توانائی کے شعبے میں 13 بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی ہے ، پچھلے 4 سال سے چین کی ایف ڈی آئی پاکستان میں سب سے زیادہ ہے ۔ سی پیک سے پہلے چین کی ایف ڈی آئی پاکستان میں تیرہویں نمبر پہ تھی ۔ آج یہ پہلے نمبر پہ ہے ۔ سپیشل سلک روٹ سکالر شپ، سیاحت ،فلم اینڈ ٹی وی سیمنار ، تھنک ٹینکس میں اضافہ سی پیک کی وجہ سے ہوا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک سے نہ صرف ٹریڈ اینڈ انویسمنٹ میں اضافہ ہوا ہے ۔ 2010 میں 2 ہزار پاکستانی طالبعلم موجود تھے ۔ 2016 میں یہ تعداد 22 ہزار تک پہنچ چکی تھی ۔ جبکہ یو ایس میں پاکستانی طلبہ کی تعداد 5 ہزار ہے۔ یوکے میں پاکستانی طلبہ کی تعداد 14 ہزار ہے۔ چین پاکستان کو تعلیمی اسکالر شپ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ انہوں نے چین کا دیگر ممالک سے تقابل کرتے ہوئے بیان کیا کہ چینی سیاحت کی تعداد ، چینی سرمایہ کاری کی رقم جنوب ایشیائی ممالک میں دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے اختتام میں یہ توقع ظاہر کی کہ اس کانفرنس سے شرکاء کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔
ہندوستان سے آئے مہمان جناب سدھیرگلکرنی ایڈوائزر فورم فار نیوساؤتھ ایشیاء چین نے کہا کہ میں یہاں بھارت سے تمام محبت کرنے والوں کا سلام لے کر آیا ہوں ۔ شکر کہ ہم دلی سے لاہور تک ہفتہ وار دو پروازیں رکھتے ہیں ۔ ہندو پاک میں اعتماد کی کمی ہے ۔ خراسان سے اراکان کو جوڑنے کے لئے چین کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ پاک بھارت جیو اسٹریٹیجک ، جیو اکنامک ، جیو سیولائزیشن مفادات ایک جیسے ہیں ۔ بلٹ اینڈ روٹ منصوبہ نہ صرف چین کی ترقی ہے بلکہ یہ جنوب ایشیاء اور انسانیت کی ترقی ہے۔ صدر شی دنیا بھر کے سمجھدار اور وژنری لیڈر ہیں ۔ ان کی سوچ کو پوری دنیا کے ترقی پسند اور امن پسند احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے ۔ بھارت نے ابھی تک اس منصوبے کو قبول نہیں کیا ۔ لیکن بھارت اس منصوبے کی سوچ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ وزیر اعظم مودی بیجنگ میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت ایس سی او ممالک سے زمینی رابطہ ممکن بنانا چاہتا ہے ۔ بھارت پاکستان اور چین کو بائے پاس نہیں کرسکتا۔ اسی طرح پاکستان علاقائی رابطے کے لئے بھارت کو بائی پاس نہیں کرسکتا ۔
جنوبی ایشیاء دنیا کا سب سے گنجان آباد علاقہ ہے ۔ سی پیک ایک گیم چینجر ہے۔ ترقی یافتہ پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے ۔ اسی طرح ترقی یافتہ بھارت پاکستان کے مفاد میں ہے۔ سی پیک کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اگر بھارت اس میں شامل نہ ہو۔ اس کا نام بدلا جا سکتا ہے اس میں افغانستان کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے ۔ اس منصوبے کی کامیابی سے کشمیر کا مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے ۔
سلک روٹ بنگال ٹو کابل جی ٹی روڈ کو دوبارہ احیاء کی ضرورت ہے ۔ سی پیک میں دیگر ممالک کوشامل کیا جائے اور اس منصوبے کو وسعت دی جائے ۔
جب ٹماٹر لاہور میں 300 روپے کلو تھے تب امرتسر میں یہ 40 روپے کلو مل رہے تھے ۔ صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ، تجارتی تعلقات کی کمی کے سبب سرحد کے دونوں جانب ایسے مسائل موجود ہیں ۔ ہمیں باہمی تجارت کو فروغ دینا ہوگا ۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ،سابق سفیر جناب سرور نقوی، ڈاکٹر خالدہ غوث ، امتیاز فیروز گوندل ، عزیز احمد خان ، یوبراج سندھولا، پروفیسر وانگ شو، بیرسٹر شہزاد اکبر سابقہ سپیشل پراسیکیوٹر نیب پروفیسر فضل الرحمن اسٹریٹیجک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ، افراسیاب خٹک سابقہ سینیٹر ، جناب تاج حید ر سابقہ سینیٹر بھی گفتگو میں شامل تھے۔
کانفرنس پہلے روز کے اختتام پر ڈائریکٹر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز عامر رانا نے مہمانوں میں اعزای شیلڈز تقسیم کئے ۔ سیشن کے اختتام پہ گروپ فوٹو بھی بنایا گیا ۔