PIPS Press Release
 
pic-2
 
 

Urdu Version Below

Students of different backgrounds often carry strong biases about each other. To overcome them, and help produce social harmony, students should be given opportunity to interact with other, not only academically but also in non-curricular activities. Above all, they should be taught how to talk to each other, rather than talking at each other.

These were some of the findings of the engagement of 150 university and madrassah students from Multan, in a series of five youth camps, organized by Pak Institute for Peace Studies (PIPS), an Islamabad-based think tank.

The camp, consisting of learning workshops and day-long study tour, was designed to enable students of madrassah and university, shed their mutually-held misperceptions and stereotypes about each other. During the interactions, students admitted that the two have different conceptions of the world around them.

What was striking was that students did not much interact even within the same group. Seminary students, because of studying in sect-based institutions, do not intermingle much with students of other sect’s seminary. So much so that while a madrassah student might have visited a university, he will be more reluctant to step into seminary of another sect. The study tour helped them overcome this unease. Madrassahs should be encouraged for cross-madrassah interactions.

Similarly, in public-sector universities, students often come from different regions, speaking different languages. Instead of letting this diversity plunge into discrimination and violence at campuses, universities should celebrate the blending in of different ethnicities, such as through cultural days.

Renowned experts and scholars who spoke in the youth camp included Amanat Rasool, religious scholar; Ammar Khan Nasir, religious scholar; Shahid Nadeem, play writer; Yasir Pirzada, columnist; Wajahat Masood, analyst; Amjad Tufail, a literary critic, besides other researchers.

Speakers taught students that having differences is not wrong. “Human civilizations have progressed on the basis of differences.” But the way differences are expressed can have repercussions.

Students curiously asked about avoiding tussles amid differences. It emerged that dialogue, which involves exchange of ideas with each other, produces amiable environment, rather than resorting to monologue contests, where the intention is to win over the other. PIPS noted that students should be taught about conducting dialogue in educational establishments.

Students, 18 to 25 years old, were also advised not to resort to fake news online. Fake news, it was noted, produces hate speech. One of the best ways to stop hate speech online is to train students on checking authenticity of reports. Being better equipped will lead to being better informed, a sure remedy for countering lies and hate.   

لاہور شہر کی تاریخ سے آگہی یہ بتاتی ہے کہ اس تاریخی شہر کی ترقی میں ہندو مسلم اور سکھوں سمیت تمام برادریوں نے مل کر کام کیا ۔طلبہ  ہم آہنگی یوتھ کیمپ لاہور

مختلف  مسالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ عام طور پر ایک دوسرے سے تعصب برتتے ہیں ۔ اس صورتحال سے بچاؤ کے لئے لازم ہے  کہ طلبہ کو نہ صرف علمی بلکہ تفریحی سرگرمیوں میں بین المسالک ہم آہنگی کا ماحول سیکھنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ وسیع القلبی کے ساتھ ایک دوسرے کا احترام سیکھیں  ۔ اس کے لئے لازم ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے باہمی گفتگو کا موقع دیا جائے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے پہ جملے کسنے کی بجائے باہمی  بات چیت کریں۔

یہ نتائج اسلام آباد میں واقع ایک نجی تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹدیز نے لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں ملتان سے تعلق رکھنے والے مختلف مسالک کے مدارس کے 75طلبہ اور بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی  سے تعلق رکھنے والے 75 طلبہ کے درمیان بیس روزہ تربیتی ورکشاپس  میں اخذ کئے  گئے جنہیں پانچ کیمپس میں تقسیم کیا گیا تھا ۔

رواں مہینے اس سرگرمی کے دوران ان پانچ مختلف کیمپس میں آئے  ہوئے طلبہ کے لئے نہ صرف ایک مشترکہ رہائش اور ماہر دانشوران کے لیکچررز کا انتظام کیا گیا تھا بلکہ ان کے لئےلاہور شہر میں تاریخی اور علمی مقامات کے تعلیمی دوروں کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ باہمی ربط اور ہم آہنگی کی اس عملی کوشش کے دوران  طلبہ نے کئی بار اس امر کا اعتراف کیا کہ اس سرگرمی سے پہلے وہ دیگر مسالک یا تعلیمی طرز کے متعلق تعصب برتتے تھے  خاص طور پر یونیورسٹی طلبہ نے بیان کیا کہ ہماری اس سے پہلے مدرسہ طالبعلوں کے متعلق یہ رائے تھی کہ ان کے ہاں طرز تعلیم فرسودہ ہے اور انہیں  پڑھائے جانے والے علوم کی دنیاوی معاملات میں زیادہ اہمیت نہیں ہے ۔ اسی طرح مدرسہ سے آئے بیشتر  طلبہ نے یہ اعتراف کیا کہ انہیں اس سرگرمی کے قبل یونیورسٹی کے طلبہ کے متعلق ذاتی طور پر جاننے کا کوئی اتفاق نہیں تھا اور یہ کہ وہ انہیں دین سے ناواقف دنیادار لوگ سمجھتے تھے ۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مدارس کے طلبہ کی باہمی دوستی اور خوش گپیاں تمام شرکاء اور منتظمین کے لئے خوشگوار تھیں  ۔

اس دورا ن یہ دیکھا گیا کہ ایک ہی فقہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مسالک کے طلبہ کا بھی ایک دوسرے سے  رابطے کا فقدان تھا اور انہیں اس طرح دیگر مسالک کے طلبہ سے ملنے کا موقع پہلی دفعہ مہیا ہوا تھا ۔

ایک طرف جہاں مدارس کے طلبہ  میں سے بیشتر کا تعلق اپنے  مدرسے کے آس پاس واقع شہروں اور دیہاتوں اور قصبوں سے تھا تو دوسر ی جانب یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ کا تعلق دوردراز علاقوں سے بھی تھا جن میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہیں پہلی بار مدارس کے طلبہ سے  واقفیت اور لاہور شہر دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔

کیمپ کے طلبہ نے  لاہور شہر کے معروف مدارس  اور پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت دورے کئے جب وہاں تعلیمی سرگرمیاں تھیں  اس دوران اپنے تاثرات  بیان کرتے ہوئے یونیورسٹی طلبہ نے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مدارس کے طلبہ اپنے دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیشتر وقت تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں جبکہ مدارس کے طلبہ کے مطابق انہیں پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود مذہبی کتب کی تعداد نے بہت متاثر کیا ہے ۔

اس کیمپ کے دوران  جس کا عنوان ''سماجی تنوع کی اہمیت تھا  '' ملک کے جید علماء اور دانشوران و صحافی حضرات نے  طلبہ کو مختلف موضوعات پہ لیکچرز دیئے جن میں علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی  مہتتم جامعہ نعیمیہ لاہور ، ثاقب اکبر چیئرمین البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد ، صاحبزادہ امانت رسول سربراہ ادارہ فکر جدید ، عمار خان ناصر  ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ  کے علاوہ وجاہت مسعود   مدیر اعلیٰ ہم سب پاکستان ، شاہد محمود ندیم سربراہ اجوکا تھیٹر ،  ڈاکٹر اقبال چاولہ سربراہ شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی لاہور ، یاسر پیرزادہ معروف کالم نگار ، اعزاز سید ، عمران مختار ، شیر علی خلطی ، سبوخ سید معروف رپورٹر زو صحافیان  بھی شامل تھے  ۔ صحافی حضرات نے شریک طلبہ کو جھوٹی خبروں کی نشاندہی  کے متعلق آگاہ کیا اور انہیں تربیت دی کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے استعمال سے وہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں موجود جھوٹی خبروں کی رسائی اور اشاعت سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ جھوٹی خبریں معاشرے میں تشدد اور نفرت بڑھانے کا باعث بنتی ہیں جن کا تدارک ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ کیمپ کے اختتامیے پہ شرکاء نے اتفاق کیا کہ سماج میں اختلافی رائے اور نقطہ نظر سماج کی خوبصورتی کی نشانی ہے جبکہ اختلافات کو ذاتیات میں تبدیل کرکے نفرت اور تنازع کا فروغ معاشرتی برائی ہے ۔جس کے خاتمے کے لئے سماج کے تمام عناصر بالخصوص نوجوانوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا ۔  

 
 
 
 
 

About PIPS

Pak Institute for Peace Studies (PIPS) is an independent, not-for-profit non-governmental research and advocacy think-tank. An initiative of leading Pakistani scholars, researchers and journalists, PIPS conducts wide-ranging research and analysis of political, social and religious conflicts that have a direct bearing on both national and international security.